757

پڑھیئے جاویدچوہدری کاکالم:نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ جیل میں کیا سلوک ھورھا ھے..

میاں نواز شریف 13 جولائی کو اپنی اہلیہ کو کومہ میں چھوڑ کر پاکستان آئے‘ یہ لاہور سے سیدھے اڈیالہ پہنچادیئے گئے‘ انہیں جنرل پرویز مشرف کی طرح ہتھکڑی لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن آرمی چیف جنرل باجوہ نے روک دیا‘ جیل پہنچ کر مریم نواز اور میاں نواز شریف کو الگ الگ کر دیا گیا‘ مریم نواز کو جیل کے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں قید کر دیا گیا‘ انہیں چارپائی اور گدابھی دے دیا گیا جبکہ میاں نواز شریف کو سی کلاس کی بیرک میں لایا گیا‘

بیرک میں چار پائی نہیں تھی‘ انہیں فرش پر گدا ڈال دیا گیا‘ پنکھا پرانا اور دور تھا‘ باتھ روم بیرک سے باہر تھا‘ میاں نواز شریف نے جائے نماز‘ قبلے کا رخ اور قرآن مجید مانگا‘ نماز پڑھی اور فرش پر لیٹ گئے‘ یہ سختی میاں نواز شریف کےلئے انتہائی سختی تھی‘ یہ اس سلوک کے عادی نہیں تھے‘ 13 جولائی کی رات انہیں شدید پسینہ آیا‘ 14 جولائی کو ڈاکٹروں نے معائنہ کیا‘ یہ بلڈ پریشر‘ شوگر اور کولیسٹرول کے مریض ہیں‘ ان کا بائی پاس بھی ہو چکا تھا اور ان کو دو سٹنٹ بھی پڑ چکے ہیں‘

ان کا یورک ایسڈ زیادہ تھا‘ ڈاکٹروں نے انہیں بہتر جگہ شفٹ کرنے کی ایڈوائس دے دی‘ عملے نے انہیں بی کلاس بھجوا دیا‘ انہیں وہاں چارپائی اور گدا بھی دے دیا گیا اور پلاسٹک کی ایک کرسی اور ایک میز بھی‘ باتھ روم بھی ساتھ تھا لیکن باتھ روم گندہ اور گدا بدبودار تھا‘ کمرے میں صرف پنکھا تھا‘ کھانا بھی جیل کا ملتا تھا اور پانی بھی‘ میاں نواز شریف پانی نہیں پیتے تھے‘ فضا میں حبس تھا‘ یہ دل کے مریض بھی تھے چنانچہ یہ ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہو گئے‘ جیل کے ڈاکٹر نے معائنہ کیا تو یورک ایسڈ اور کریٹامین کی مقدار بہت زیادہ تھی‘

جنرل اظہر کیانی اور ڈاکٹر حامد شریف کو طلب کیاگیا‘ دونوں نے طبیعت کو تشویش ناک ڈکلیئر کر دیا‘ ان کا خیال تھا مریض کے گردے کسی بھی وقت فیل ہو سکتے ہیں‘ ڈاکٹروں نے انہیں ہسپتال شفٹ کرنے اور ڈرپس لگانے کی ایڈوائس دے دی لیکن جیل حکام نے 12 گھنٹے اس ایڈوائس پر عمل نہیں کیا‘ مجھے 22 جولائی کی شام پتہ چلا‘ میں نے تصدیق کےلئے جیل کے عملے اور ڈاکٹر جنرل اظہر کیانی سے رابطہ کیا‘ یہ دونوں صورتحال بتانے سے انکاری تھے‘

میرے پاس میاں نواز شریف کی بلڈ رپورٹ اور ڈاکٹروں کی ایڈوائس کی کاپی تھی چنانچہ یہ آدھ گھنٹے کے انکار کے بعد مان گئے‘ ہم نے ایکسپریس نیوز پر خبر بریک کر دی‘ شروع میں اس اطلاع کو غلط قرار دیا گیا لیکن پھر حکومت‘ جیل حکام اور جنرل اظہر کیانی تمام نے تصدیق کر دی تاہم حکومت نواز شریف کو 25 جولائی سے قبل ہسپتال شفٹ نہیں کرنا چاہتی تھی‘ پمز کے 5 ڈاکٹروں کا میڈیکل بورڈ بنا ‘ یہ بورڈ 23 جولائی کو جیل گیا‘ میاں نواز شریف نے جیل سے شفٹ ہونے اور اپنے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان خان کی اجازت کے بغیر دوا کھانے سے انکار کر دیا‘

ڈاکٹر عدنان خان شریف میڈیکل کمپلیکس سے وابستہ ہیں ‘ یہ 20 سال سے ان کے معالج ہیں‘ میاں صاحب ان کے مشورے کے بغیر کوئی دوا نہیں کھاتے‘ ڈاکٹر عدنان کو بلایا گیا‘ وہ آئے اور تصدیق کی ان کے دونوں گردوں میں پتھری ہے‘ پسینہ اور ٹینشن دونوں ان کےلئے خطرناک ہیں‘ ڈاکٹر عدنان کے مشورے سے ادویات تبدیل کر دی گئیں‘ 25 جولائی کو الیکشن ہو گئے‘ جیل میں میاں صاحب کی طبیعت خراب ہوتی رہی یہاں تک کہ انہیں 29 جولائی کو ہارٹ اٹیک ہو گیا‘

ڈاکٹروں کو ایمرجنسی میں طلب کیا گیا‘ نواز شریف ہوش میں تھے‘ یہ کھا پی بھی رہے تھے لیکن ان کی ای سی جی بھی ابنارمل تھی اور ٹرپونن آئی ٹیسٹ بھی 54 اعشاریہ تین تھا‘ یہ نارمل حالات میں 32 ہوتا ہے‘ ڈاکٹروں کو لیفٹ بنڈل برانچ بلاک (ایل بی بی بی) بھی ملا چنانچہ انہیں فوراً سی سی یو میں شفٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا‘ میاں نواز شریف نے ہسپتال جانے سے انکار کر دیا‘ پمز کے ڈاکٹر نعیم ملک سارا دن انہیں ہسپتال جانے کےلئے راضی کرتے رہے لیکن یہ نہ مانے‘

آخر میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو ان کے سیل میں لایا گیا‘ یہ نہیں مانے‘ ڈاکٹر عدنان کو بھی لاہور سے بلا لیا گیا‘ ڈاکٹر عدنان نے انہیں بڑی مشکل سے راضی کیا یوں انہیں 29 جولائی کی رات ساڑھے آٹھ بجے پمز شفٹ کر دیا گیا‘ انتظامیہ نے ڈاکٹر عدنان کو بھی وزٹ کی اجازت دے دی ہے‘ میاں نواز شریف کا علاج اب ان کے ذاتی معالج کی نگرانی میں ہو رہا ہے‘ ان کی ادویات تبدیل کر دی گئی ہیں‘ انہیں خون پتلا کرنے کے انجیکشن بھی لگائے جا رہے ہیں لیکن ان کی حالت نہیں سنبھل رہی‘

ڈاکٹروں کا خیال ہے اگر خون پتلا نہ ہوا یا ان حالات میں مزید ہارٹ اٹیک ہو گیا تو یہ جان لیوا ثابت ہو گا۔جیل میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی حالت بھی ٹھیک نہیں‘ کیپٹن صفدر نے پچھلے سال وزن کم کرنے کےلئے معدے کا آپریشن کرایا تھا‘ ان کا معدہ آدھا ہے اور کھانے کی نلی میں ٹانکے لگے ہیں چنانچہ یہ کھانا نہیں کھا پا رہے‘ ان کا وزن تیزی سے گر رہا ہے جبکہ مریم نواز کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ ن کے ایک لیڈر نے مجھے بتایا”میں نے زندگی میں ان سے زیادہ ہائی فائی خاتون نہیں دیکھی‘

میں 12 جولائی کو لندن میں ان سے ملا تھا اور پھر 19 جولائی کو جیل میں ان سے ملاقات ہوئی‘ یہ ایک ہفتے میں سکڑ کر رہ گئی ہیں‘ میں نے 19 جولائی کو اپنی آنکھوں سے میاں نواز شریف کی پوری قمیض بھی پسینے سے شرابور دیکھی‘ مریم نواز کی 13 سال کی بیٹی ہمارے ساتھ تھی‘ وہ ماں سے لپٹ کر رونے لگی‘ ہم سب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے“۔میں نے یہ داستان سنی تو میں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگی‘ میں دل سے سمجھتا ہوں میاں نواز شریف اس سلوک کو ڈیزرو نہیں کرتے‘ ان کے ساتھ ذیادتی ہو رہی ہے‘ عمران خان الیکشن جیت چکے ہیں‘ ہدف پورا ہو چکا ہے لہٰذا اب نواز شریف کو گھر جانے کی اجازت ملنی چاہیے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں