372

راجہ فاروق حیدر ۔ ایک عہد ساز وزیراعظم

تحریر: راجہ تیمور ظفر
وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان 2016 میں جب وزیراعظم آزادکشمیر منتخب ہوئے تو حکومت کو مالی بدحالی ، کرپشن اور میرٹ کی پامالیوں کے علاوہ جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش تھا وہ زبوں حال انفراسٹرکچر کا تھا، خطہ کی تمام سڑکیں کھنڈر بن چکی تھیں جن پر پیدل چلنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ حکومت کے مالی حالات یہ تھے کہ 22 ارب روپے خسارہ تھا اور حکومت کے پاس پہلے مہینوں میں اتنے پیسے نہیں تھے کہ سرکاری ملازمین کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔ یہی وجہ تھی کہ حکومت کو پہلے تین چار ماہ تک سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کیلئے پاپڑ بیلنا پڑے اور سرکاری ملازمین بالخصوص ایڈھاک اور کنٹریکٹ ملازمین تنخواہوں سے محروم رہے۔ ان حالات میں انفراسٹرکچر کی بہتری تو دور حکومت کو پریشانی یہ تھی کہ کسی طرح اتنی رقم ہو جائے کہ سرکار اپنا انتظام چلا سکے۔ ان حالات میں وزیراعظم راجہ فاروق حیدر خان نے مختصر کابینہ بناتے ہوئے کفایت شعاری کی پالیسی کا اعلان کیا اور غیر ضروری سیاسی ایڈجسٹمنٹس ، بھاری بھرکم کابینہ اور غیر ضروری اخراجات کو ختم کر کے پہلے چھ ماہ میں چھ ارب روپے کی بچت کی اور میاں محمد نواز شریف کو مسائل سے آگاہ کر کے آزادکشمیر کیلئے فنڈز کا حصول ممکن بنایا، اگست میں بننے والی حکومت نے پہلے ہی سال کفایت شعاری سے کام لیتے ہوئے اپنے اراکین اسمبلی کو کروڑوں روپے ترقیاتی کاموں کیلئے دیئے جس سے آزادکشمیر میں ایک ساتھ تمام حلقوں میں ترقیاتی کاموں کا بڑے پیمانے پر آغاز ہوا جو اب اتنی تیزی سے جاری ہے کہ خیال کیا جارہا ہے کہ آزادکشمیر کی تمام پرانی سڑکیں اگلے ایک ڈیڑھ سال میں نئے نویلی بن جائیں گی جبکہ نئے پراجیکٹس بھی مکمل ہو چکے ہوں گے۔یہ اپنی نوعیت کا منفرد کارنامہ ہے آزادکشمیر میں جنرل حیات خان اور سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان کے ادوار ہمیشہ تعمیر و ترقی کیلئے جانے جاتے ہیں اور اب راجہ فاروق حیدر خان کا دور حکومت آزادکشمیر میں تعمیر و ترقی کی نئی منازل کا تعین کر رہا ہے۔
راجہ فاروق حیدر خان نے آزادکشمیر میں صحت کی ناگفتہ بہ صورتحال پر کو بہتر بنانے کیلئے بھی گراں قدر خدمات سرانجا م دی ہیں، آزادکشمیر میں پانچ بڑے سرکاری ہسپتالوں کا قیام، پرانے ڈی ایچ کیو ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن کے ساتھ ساتھ سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں مفت ادویات کی فراہمی اور شعبہ بیرونی مریضاں میں بھی مفت ادویات کی فراہمی سے آزادکشمیر کے عوام کو سستے علاج کی سہولت میسر آئی ہے۔دو سال کی حکومت میں دودھ اور شہد کی نہریں تو نہیں بہائی جا سکتیں البتہ راجہ فاروق حیدر خان نے آزادکشمیر کے وسائل کے مقابلے کئی گنا زیادہ ترقیاتی کام کروائے ہیں جو یقیناًتاریخ میں یاد رکھے جائیں گے۔تاہم کچھ ضروری شعبہ ہائے زندگی ایسے بھی ہیں جہاں راجہ فاروق حیدر خان کی توجہ مرکوز نہیں ہو سکی جن میں پانی کی قلت سے بچاؤ کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا، آزادکشمیر میں جنگلات کے رقبہ پر درختوں کی روز بروز کم ہوتی تعداد ، ریاست میں بے روزگاری کے عفریت کو قابو کرنے کیلئے جامعہ پالیسی اور پرائیویٹ سیکٹر کو پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش، شہروں کی صفائی کیلئے سہولتوں کی فراہمی اور محکمہ پولیس کو جدید تقاضوں کے مطابق اپ گریڈ کرنے جیسے مسائل مستقبل میں سر اٹھا سکتے ہیں جن کے لئے ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر اس جانب بھی توجہ دے۔

آزادکشمیر کا ستر سالوں سے سب سے بڑا مسئلہ آئینی بحران تھا جس پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ ایکٹ 74 کی موجودگی کشمیریوں میں پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکانے میں اہم کردار ادا کر رہی تھی۔ راجہ فاروق حیدر خان نے نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ اس اہم اور انتہائی حساس مسئلہ پر میاں محمد نواز شریف کے سامنے کشمیریوں کا کیس اٹھایا اور انتھک محنت اور لگن کی بدولت دو سال کی جدوجہد کے بعد وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کے ہاتھوں کشمیری عوام کو ایکٹ 74 کے طوق سے آزادی نصیب ہوئی جو یقیناًآزادکشمیر کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ ایکٹ 74 کے مقابلہ آزادجموں و کشمیر عبوری آئین 2018 کی منظوری کسی معرکے سے کم نہیں ہے ۔ کچھ پیچیدہ قانونی مسائل مستقبل میں سر اٹھائیں گے جن میں وفاقی اداروں کی آزادکشمیر میں براہ راست رسائی سب سے بڑا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ ایف بی آر، ایف آئی اے، نیب، اینٹی نارکوٹکس، کسٹمز سمیت دیگر وفاقی ادارے آزادکشمیر میں جب کاروائیاں کرنے پہنچیں گے تو راجہ فاروق حیدر خان کے ایکٹ 74 میں ترمیم کے کارنامے پر سوالات اٹھنے لگیں گے اس لئے ضروری ہے کہ حکومت جلد از جلد ان ممکنہ مسائل کیلئے قانون سازی کرے اور ایک ایسا نظام وضع کرے جس سے آزادکشمیر پاکستان کے ساتھ محبت اور وابستگی کے خوبصورت رشتے میں پرویا بھی رہے اور بااختیار بھی رہ سکے۔اسی طرح آزادکشمیر میں لاتعداد ایسے قوانین سرے سے موجود ہی نہیں ہیں جو آج کی جدید دنیا میں لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں، آزادکشمیر میں لیبر قوانین، بنیادی انسانی حقوق سے متعلق قوانین، سائبر کرائم کے قوانین، آئی ٹی سے متعلق قوانین، صنعتوں کے فروغ کے لئے جدید قوانین سمیت متعدد ایسے معاملات ہیں جن پر سنجیدگی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔آج بھی فیکٹری ایکٹ 1928 جیسے قانون اکیسویں صدی میں رائج ہیں جبکہ دنیا ہم سے ایک صدی آگے چل رہی ہے۔
راجہ فاروق حیدر خان کا یہ دور حکومت ایک عہد ساز دور حکومت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، پاکستان میں روز بروز سیاسی عدم استحکام کا اثر آزادکشمیر پر بھی پڑ سکتا ہے، آزادکشمیر کے اراکین اسمبلی کو وافر فنڈز کی فراہمی اور کارکنان کی اب تک پارٹی کے ساتھ لازوال کمٹمنٹ نے آزادکشمیر کو کافی حد تک عدم استحکام سے بچا رکھا ہے مگر یہ بچاؤ کب تک ممکن ہے اسکا اندازہ مستقبل کے حالات کے مطابق لگایا جا سکتا ہے۔ آزادکشمیر میں کابینہ میں توسیع تو کر دی گئی ہے مگر بڑے وزراء کے پاس فی کس تین تین چار چار بڑے محکمے اور بعض وزراء کے پاس انتہائی کمزور محکمے دیکر ان وزراء اور انکے حامی اراکین اسمبلی میں مایوسی پید اکی گئی ہے جو آگے چل کر کافی خرابیوں کا باعث بن سکتی ہے۔ سیاسی کارکنان کو مکمل طور پر نظر انداز کرنے اور حکومت اور سرکاری دفاتر میں کارکنوں کیلئے دروازے بند کرنے سے راجہ فاروق حیدر تیزی سے کارکنان میں اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں۔وزیراعظم سٹاف کے افسران کے کارکنوں کے ساتھ ہتک آمیز رویے کی وجہ سے بھی لیگی کارکنان آئے روز سراپا احتجاج نظر آتے ہیں ۔ راجہ فاروق حیدر خان کی جانب سے اپنے کارکنان کو نظر انداز کرنے کا یہ عالم ہے کہ انکے آبائی حلقے میں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جہاں آج تک لوگوں کو تعمیر و ترقی کی سمجھ نہیں آئی اور نہ ہی وہاں سے کوئی سیاسی یا سرکاری تعیناتی کی جا سکی ہے۔آزادکشمیر میں ستر کے قریب سیاسی پوسٹوں پر اب تک تقرریاں نہیں کی جا سکی ہیں جبکہ آزادکشمیر حکومت کے پاس ماضی کے مقابلے تین گنا زیادہ فنڈز موجود ہیں اور یہ پوسٹیں سیاسی کارکنوں کا جائز حق ہوتی ہیں جبکہ مقامی وزراء اور ایم ایل ایز کی جانب سے بھی پارٹی ورکرز کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے اور ذاتی تعلقات والے سیاسی کارکنوں کو مضبوط کیا جارہا ہے جس سے پارٹی کمزور تر ہوتی جارہی ہے اور اگر مستقبل میں راجہ فاروق حیدر خان کو کارکنان کی ضرورت پڑی تو شائد انہیں کارکنان لفٹ نہ کرا سکیں۔ حکومت بنتے ہی کارکنان کو بلدیاتی انتخابات کا لالی پاپ دینے کے بعد اب حکومت بلدیاتی انتخابات کی بات بھی نہیں کرتی جو حکومت کیلئے نقصان دہ ہو گا۔جہاں راجہ فاروق حیدر خان کے عہد ساز کارنامے ہیں وہیں انہیں ان چھوٹے موٹے مسائل کو بھی سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں