169

تو ہے یا تیرا سایا ہے

تو ہے یا تیرا سایا ہے

بھیس جدائی نے بدلا ہے

دل کی حویلی پر مدت سے

خاموشی کا قفل پڑا ہے

چیخ رہے ہیں خالی کمرے

شام سے کتنی تیز ہوا ہے

دروازے سر پھوڑ رہے ہیں

کون اس گھر کو چھوڑ گیا ہے

تنہائی کو کیسے چھوڑوں

برسوں میں اک یار ملا ہے

رات اندھیری ناؤ نہ ساتھی

رستے میں دریا پڑتا ہے

ہچکی تھمتی ہی نہیں ناصرؔ

آج کسی نے یاد کیا ہے

ناصر کاظمی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں