کب سے پنپ رہا ہے ترے لب پہ چھل کا سانپ
ڈسنے لگا ہے دل کو وہ بن کر عمل کا سانپ
آج اور آستیں سے نکل آیا دفعتا
مارا نہیں گیا ہے ابھی تک تو کل کا سانپ
مانگیں تھی بارشیں کہ نمویاب ہو سکیں
کیا ہو،نگل گیا مری بستی جوجل کا سانپ
بے کار ہی گئیں مری جانب شرارتیں
رُخ پھیرنے لگا ترے افکارِ شل کا سانپ
آخر گراوٹوں نے گرا ہی دیا تجھے
کھا ہی گیا تجھے ترے پیچاک و بل کا سانپ
کھلیان آج بھی مرے خالی پڑے رہے
ڈس کر نکل گیا کہیں فصلِ امل کا سانپ
ہونے لگی ہے خواہشِ معصوم نیلگوں
احساس پر لپٹ گیا مصروف پل کا سانپ
اے کاش ابتدا میں کچل دیتے صائمہ
یوں تو نہ پالتے مرے پیارے جہل کا سانپ
صائمہ اسحاق