173

مدت ہوتی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے،

مدت ہوتی ہے یار کو مہماں کئے ہوئے
جوش قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے
کرتا ہو جمع پھر جگر لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوت مژگاں کئے ہوئے
پھر وضع احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کئے ہوئے
پھر گرم نالہ ہائے شرر بار ہے نفس
مدت ہوئی ہے سیر چراغاں کئے ہوئے
پھر پرسش جراحت دل کو چلا ہے عشق
سامان صد ہزار نمکداں کئے ہوئے
دل پھر طوف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کئے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرض متاع عقل و دل و جاں کئے ہوئے
مانگے ہے پھر کسی کو لب بام پر ہوس
زلف سیاہ رخ پہ پریشاں کئے ہوئے
ایک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کئے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بار منت دربان کئے ہوئے
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہیں تصور جاناں کئے ہوئے
غالؔب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کئے ہوئے
اسد اللہ خان غالؔب

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں